آرٹیکل

انسانی حقوق کا عالمی دن اور جموں کشمیر ،کچھ تلخ حقائق

تحریر : شمائلہ انور راجہ

جہاں دنیا کی تمام مہذب اور روشن خیال اقوام نےبین الاقوامی انسانی حقوق کا دن منایا وہاں ہماری ریاست جموں کشمیر کی منقسم قوم کے ترقی پسند اور آزاد خیال بیانیے کے حامل لوگوں نے بھی پورے زور و شور سے یہ دن منایا ہے اور وہ انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے پوری شد ومد سے اس کی افادیت پر زور ڈالتے نظر آئے۔ اس سے پہلے کہ میں لفظ منقسم پر روشنی ڈالوں ،میں چاہوں گی کہ اقوام متحدہ کی بیان کردہ انسانی حقوق کی تعریف کا حوالہ دیا جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق؛ ” حقوق انسانی ہر ذی روح انسان کے پیدائشی حقوق ہیں۔ ہماری قوم ، رہائش، جنس، قومیت یا علاقائی جائے پیدائش، رنگ ، مذہب یا کوئی بھی دوسری حیثیت ہو ہم سب برابر انسانی حقوق رکھتے ہیں، یہ سارے حقوق ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے، ایک دوسرے پر منحصر اور ناقابلِ تقسیم ہیں”۔ اگر اسی تعریف کو ریاست جموں کشمیر اور اس میں بسنے والے انسانوں پر لاگو کیا جائے تو ذی روح انسان کا مطلب صرف مرد ، خطے یا رہائش کی جگہ کا مطلب؛ میں کشمیری تُم جموں وال، میں لداخی تم گلگتی ۔ صنفی برابری کی بات کی جائے تو آسمان ٹوٹنے کے مترادف ، مذہب کی بات پر تو بندوق اٹھا لی اور مر مٹ گئے ایک لاحاصل کی تلاش میں قید ہوگئے، بات کرنے کا موقع آیا تو جو کشمیری زبان نہیں بول سکتا اسے تو آزادی کی بات کرنے کا حق ہی نہیں کہ وہ کبھی اپنی آزادی کی بات تک بھی کر لے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی تعریف کرتے ہوئے جانے کیوں بھول گئی کہ "تفریق کی بات” کشمیریوں پر صادر ہی نہیں آسکتی کیوں کہ اگر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی ہی بات کی جائے تو بات برادری سے شروع ہو کر برادری پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کیا دایاں
بازو اور کیا بایاں بازو ، برادری اور قبیلہ پرستی کے نام پر ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں ایک دوسرے کا ثانی نہیں رکھتے۔ ریاست جموں کشمیر کا وہ خاص حصہ جسے وادی کہا جاتا ہے وہاں کے باسیوں کو شاید خالصتان کے لوگوں کا درد تو محسوس ہوتا ہے لیکن حد متارکہ کے اس پار کے ریاستی باشندوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں آواز بلند کرنے کو وہ آزادی کی جدوجہد کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ایک طرف بھارتی حکومت اگر بھارت کے اندر ہی مسلمانوں کو گائے کا گوشت نہ کھانے دیا جائے تو ایک قیامت برپا ہو جاتی ہے لیکن دوسری طرف اگر ٹھاٹھیں مارتے دریاؤں کا رخ موڑ کر عوام کو پانی جیسی نعمت سے محروم کردیا جائے تو اس کی مذمت کے الفاظ تک ادا کرنا بھارتی زیر انتظام جموں وکشمیر کی انسانی حقوق کے نام پر سیاست کرنے والے سیاسی عمائدین کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ اہم نہیں۔ حد ِ متارکہ کی دوسری جانب کی بات کی جائے تو ہمارے ترقی پسند اور روشن خیال کشمیری جنہیں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کی تحریکوں کی حمایت اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے تو فرصت نہیں ملتی(گو کہ یہ کوئی امر مانع نہیں ہے)لیکن وادی میں ہونے والی فوجی جارحیت کے نتیجے میں مرنے والے بچوں اور عورتوں کے لیےلکھنے پر شاید ان کے قلم میں سیاہی موجود نہیں۔ یاد رہے کہ ان خواص کے حامل (آزاد) کشمیری دنیابھر میں ہونے والا تشدد پر مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جموں وکشمیر کے سیاسی قائدین، روشن خیال اور ترقی پسند دانشوروں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اقوامِ عالم سے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کی بات بھی کی ہوگی۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ اقوامِ عالم ہماری ساری کوتائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وادی والوں کو اسلامی ریاست اور(آزاد) کشمیر والوں کو ایک سیکولر ریاست کسی پلیٹ میں سجا کر تحفتاً پیش کر دیں گی۔ اور ہماری جدوجہد یہاں پر ختم نہیں ہوگی ہم کوشش کریں گے کہ ہمیں جس طرح کی بھی ریاست ملے گی اسے برادری، قبیلے ، زبان اور مذہب کے نام پر تقسیم کر کے پھر سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔
اگر تفریق اور تفرقہ بازی کی بات کی جائے تو ریاست جموں کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام حصے میں عورت سب سے زیادہ تفریق کا شکار ہے۔ بظاہر خوشنما ، ترقی پسند ، روشن خیال اور انسانی حقوق کے راگ الاپنے والے بڑے بڑے لیڈروں اور دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والی عورت سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ عورت کے منہ سے حق کے لیے نکلنے والی آواز گویا کوئی آتش فشاں یا لاوا ہو جو ان مردوں کے وجود کو مٹا کے رکھ دے گی۔ سیاست میں اگر کوئی خاتون مردوں کے شانہ بشانہ نہیں بلکہ ان سے دو قدم آگے چلتے ہوئے محنت کرتی ہے تو یہ شاؤنزم کا شکار مرد اس عورت کی ہرزہ سرائی اور اسکے کردار پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خود حقوق کی پامالی کرنے والے سیاسی زعماء اور مرد حضرات کو کیونکر یہ خوش گمانی ہے کہ خود حقوق کی پامالی کرنے والوں کی جانبدار جدوجہد سے انہیں انسانی حقوق مل جائیں گے۔ ان سارے سماجی اورمعاشرتی حالات سے چند سوالات جنم لیتے ہیں جو پوچھنا ریاست کے ایک ذمہ دار شہری اور سیاسی فہم اور شعور رکھنے والے انسان کا سیاسی اور اخلاقی فریضہ بنتا ہے۔ ہم نے کیا کبھی خود کبھی ریاست جموں وکشمیر کے بیانیے یا ریاست کے اندر لوگوں کی فکری اور شعوری تربیت کے بارے میں سوچا؟ کیا برادری ، نسل ، قبیلہ اور مذہبی تقسیم کی زنجیروں کو توڑنے کی سعی کی؟ کیا کبھی ہم نے ایک دوسرے کے بولنے کے حق کو ہی تسلیم کیا؟ کیا ایک دوسرے کے سیاسی نظریے پر تنقید کی بجائے اسکی پسند کی آزادی دے کر دیکھا؟ کیا کبھی ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہوئے ایک سمت میں چل کر دیکھا؟ انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن مندرجہ بالا سب خامیوں کے باوجود ریاست جموں کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ جہاں بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے، جہاں آزادی اورقومی شناخت کی بات کی جاتی ہے لیکن کوئی ذاتی حیثیت میں دوسرے انسان تک حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ کہیں عورتوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں اور کہیں بچوں کے مگر ہمارا نعرہ ہے کہ ہمیں اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل سارے انسانی حقوق دیے
جائیں۔ جن لوگوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کا دن منایا اگر وہ اپنے گھر سے ہی بنیادی حقوق دینے کا عزم کرلیں تو بہت سے مسائل کی گتھی سلجھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اقوام عالم یا اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنے سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگاتاکہ ہم اپنے آپ کو ایک قوم منوا سکیں جو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی بجائے یک زبان ہوکر اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر سکے۔ ہم نے کیا کبھی خود کبھی ریاست جموں وکشمیر کے بیانیے یا ریاست کے اندر لوگوں کی فکری اور شعوری تربیت کے بارے میں سوچا؟ کیا برادری ، نسل ، قبیلہ اور مذہبی تقسیم کی زنجیروں کو توڑنے کی سعی کی؟ کیا کبھی ہم نے ایک دوسرے کے بولنے کے حق کو ہی تسلیم کیا؟ کیا ایک دوسرے کے سیاسی نظریے پر تنقید کی بجائے اسکی پسند کی آزادی دے کر دیکھا؟ کیا کبھی ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہوئے ایک سمت میں چل کر دیکھا؟ انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن مندرجہ بالا سب خامیوں کے باوجود ریاست جموں کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ جہاں بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے، جہاں آزادی اورقومی شناخت کی بات کی جاتی ہے لیکن کوئی ذاتی حیثیت میں دوسرے انسان تک حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ کہیں عورتوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں اور کہیں بچوں کے مگر ہمارا نعرہ ہے کہ ہمیں اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل سارے انسانی حقوق دییے جائیں۔ جن لوگوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کا دن منایا اگر وہ اپنے گھر سے ہی بنیادی حقوق دینے کا عزم کرلیں تو بہت سے مسائل کی گتھی سلجھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اقوام عالم یا اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنے سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگاتاکہ ہم اپنے آپ کو ایک قوم منوا سکیں جو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی بجائے یک زبان ہوکر اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker