یو۔کے نیوز

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کا کردار ایس ایم عرفان طا ہر

موجود ہ حالا ت کے تنا ظر میں دنیا کا سب سے اہم اور نمایا ں دہشتگردی و انتہا پسندی کے حوالہ سے مسئلہ میا نما ر کی ریا ست اراکائن میں روہنگیا مسلمانو ں کی نسل کشی ہے ۔1948 کو برما کی آزادی کے بعد ملک میں زیادہ تر آمریت کا راج رہا جس نے ملک کے آئین و قوانین اور نظم و ضبط کو بے حد نقصان پہنچایا ۔1982 کو باقاعدہ شہریت کے قوانین کے تحت برمی حکومت نے روہنگیا مسلمانو ں کو غیر ملکی شہری قرار دے دیا ۔ ان کو بنگلہ دیش کا مہاجر مانا جا تا ہے۔

اسوقت کے بعد روہنگیا مسلمانوں پر برما یعنی نیا نام میانما ر کی زمین تنگ کردی گئی ان کے بنیا دی انسانی حقوق سلب کرتے ہو ئے ان کے ساتھ حیوانو ں سے بد ترین سلوک ہو نے لگا ۔ روہنگیا مسلمانوں کو ایک گا ئو ں سے دوسرے گا ئو ں یا شہر جا نے کا اجازت نامہ لینا پڑتا ، صحت عامہ کے فوائد کے حوالہ سے بالکل نظر انداز کردیا گیا ، سرکا ری ملازمتو ں میں بھرتی سے گریز اور شادیو ں کے لیے اجازت نامہ پھر دو بچو ں سے زائد کی پیدائش پر پابندی کے ساتھ ساتھ کئی پابندیا ں عائد کردی گئیں ۔ 2012 سے جا ری فرقہ وارانہ جنگ اور سازشوں کے بعد سے روہنگیا ں مسلمانوں کو مولی گا جر کی طرح کاٹا گیا جن کے مال جان عزت و آبرو اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالہ سے ملکی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بالکل باقاعدہ اور قانونی طور پر سبکدوش ہوگئی انتہا پسندو ں نے اپنی منشا ء کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی زندگیو ں اور مستقبل کے فیصلے کرنے شروع کیے قیامت صغریٰ اس وقت ٹوٹی جب رواں سال25 اگست کے دن سیکیورٹی فورس پر حملہ کے باعث تقریبا 9 سیکیورٹی اہلکا ر ما رے گئے اور وہا ں کی اقتدار اعلیٰ پر قابض فوجی حکومت اور انتظامیہ نے روہنگیا مسلمانوں پر دہشتگردی اور انتہا پسندی کا الزام دھرتے ہو ئے گائو ں کے گائو ں اجاڑ دیے ۔

تقریبا 25 سال کے بعد ملک میں عالمی نوبل انعام یا فتہ آنگ سان سوچی کی جما عت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی کو بھا ری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی آئینی طور پر ملک کی سربراہ تو نہ بن سکیں لیکن انہیں ہی طاقت اور کا میابی کے بعد ملک کا سربراہ سمجھا جا تا ہے جن کو امن و امان جمہو ریت کے قیام اور روہنگیا مسلمانو ں کی مدد کے حوالہ سے طویل قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن نہ جا نے کیو ں آج وہ خاموشی اختیا ر کیے ہو ئے اپنی ذاتی اور سیاسی مصلحت کے باعث محض تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں حالیہ انہو ں نے روہنگیا مسلمانوں کے اس معاملہ کو مسلمانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی بھی قرار دیا ہے ۔ ان کے موئثر کردار اور ردعمل کی عدم موجودگی کی بدولت انہیںا قوام عالم کی شدید تنقید کا سامنا ہے ۔ تا حال تقریبا 4 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان اپنا ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش کے بارڈر پر پہنچ چکے ہیں جن کو غذائی قلت بے سرو سامانی بے گھر طبی سہولیا ت سے محرومی اور دیگر بنیادی ضروریا ت زندگی کی عدم موجودگی کا سامنا ہے ۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کودنیا کی سب سے پسی ہوئی اور مظلوم ترین قوم قرار یتے ہو ئے اس مسئلہ کو ایک انسانی بحران قرار دے دیا ہے ۔جس سے براعظم ایشیاء میں ایک غیر یقینی صورتحال پھیلنے کے شدید خطرات لاحق ہیں ۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق میانما ر حکومت افواج اور شدت پسند گروپ مل کر روہنگیا مسلمانوں کا صفایا کررہے ہیں اور اس میں بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ شاید کسی کو زمین کے ٹکڑے کی بھی ضرورت ہے ۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور القاعدہ برصغیر میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا فائدہ اٹھا کر شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف مائل کرسکتے ہیں کچھ روہنگیا جنگجو بین الاقوامی شدت پسندوں سے رابطے میں ہیں ۔

حرکہ الیقین روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز کے نام پر بنائی گئی تھی جس کے رہنما عطا ء اللہ کاتعلق پاکستان اور سعودی عرب سے ہے ۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کے تحفظ کا ادارہ جنیوا کے اندر اس مسئلہ کی حساسیت اور اہمیت کو مد نظر رکھتے ہو ئے بھرپور اقداما ت اٹھا رہا ہے۔میا نمار کے مسئلہ پر ایک آزادانہ تحقیقاتی ٹیم مرتب کردی گئی ہے جس کے چیئرپرسن مرزوکی داروسمان کی سربراہی میں حقائق جا ننے اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے لیے کام جا ری و ساری ہے ۔ لیکن محض یو این ایچ آر سی پر تنقید کرنے کی بجا ئے او آئی سی ، مسلم ورلڈ اور امن عامہ کے لیے بنائی گئی 34 ممالک کی ا فواج کو بھی ہوش کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس مسئلہ پر پوری اقوام عالم جاگ اٹھی ہے لیکن اس کے خاتمہ کے لیے جلد از جلد عملی اور موئثر اقداما ت اٹھا نے کی ضرورت ہے ۔ وہا ں تک فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رسائی آزاد میڈیا کی نقل و حرکت اور عالمی امن عامہ و انسانی حقوق کی ضامن تنظیما ت کی آزادانہ نقل و حرکت شدت اختیا ر کرنے والے حالا ت کو سدھا رنے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی ہے امن مزاکرات کے زریعہ سے ہی ہم ایک دوسرے کے حقوق کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker