آرٹیکل

زیر خنجر می رقصم


آٹھ سو سال پہلے قلندر کی زبان اطہر سے کہے ہوئے جملے ’’ زیر خنجر می رقصم‘‘ نے حقیقت کا روپ اس وقت دہارا کہ کالے اور سرخ رنگ کے کپڑے پہنے،علم ِ عباس ؑ کے سائے میں ماتم و نوحہ کناں عزادار اور ڈھول کی تھاپ پر غازی سرکار کو سلامی پیش کرنے والے ملنگ، بدن کی رمز اور روح کے اشارے پر قلندر کی کہی گئی وجدانی کیفیت کے عین مطابق حالت ِ رقص میں تھے ۔ حرص و طمع سے بالاتر قلندر کی سجائی گئی دنیا میں من کی تھاپ پر ناچنے اور روح کی بالیدگی اور سرشاری اور من کی دنیا کے لیے سکون اور بے خودی تلاش کرنے والوں کے لیے وہی لمحہ اس دنیا سے روانگی کا ٹھہرا لیکن حالتِ رقص میں نہ تو انہیں کوئی خوف دامن گیر تھا اور نہ ہی رنج وملال کہ کوئی سایہ ان کے چہروں پر رقم تھا۔ وہ لعل شہباز قلندر کے مزار کے روبرو اپنے من کی اجلتا کی اجلی تصویر اور حق و سچ کی خاطر سرِ دار جھول کر ایک داستان رقم کر رہے تھے۔رقص کرنے والے ، مست ملنگ، معذور فقیر، مایوس غریب، اعصاب زدہ ، منتیں ماننے والے خوش عقیدہ لوگ، ننھے بچے اور جوان لڑکے سب ناچتے ناچتے اچانک ایک سرخ رنگ کے خونی غبار میں ڈھل کر درویشوں کی طرح نظر سے اوجھل ہو گئے۔ باقی رہ گئے، کٹے ہوئے اعضاء، مردہ جسم اور سسکتے زخمیوں کا ڈھیر۔ شقی ء القلب نے دربارِ قلندر پر حملہ کیا، قبراقدس پر پڑی لال چادر نے خون کے اُڑتے چھینٹے ایسے جذ ب کیے کہ پھر اگلی فجر سے دما دم مست قلندر کا نقارہ یوں بجنے لگا کہ اس کی دھمک پر رقصاں حیدریم قلندرم مستم موالیوں کے حرکتی پیروں سے زندگی کی جھنکار پھوٹنے لگے، جیسے گزری شام کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا ایک بڑے ظلم کے فوراََ بعد دھمال سے بڑی مزاحمت بھی ممکن ہے۔؟حسینی لعل قلندر ، میرے غم ٹال قلندر اوردمام دم مست قلندر ، حسینی لعل قلندر کا ورد صرف اور صرف سیہون میں ہی ممکن ہے۔قلندر کی درگاہ خون سے تر تھی، لعل قلندر کی چادراور فرش خون سے لال تھا، لیکن می رقصم کی بلند ہوتی صداؤوں کی صورت میں قلندریوں جواب دے رہے تھے کہ ’ـ’مجھے نہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں ناچ رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے ناچتا ہوں۔تو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے ناچتا ہوں۔اے محبوب۔! اور تماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھیڑ میں ، میں سینکڑوں رسوائیوں کے سامان کے ساتھ، سرِبازار ناچتا ہوں۔واہ۔! مے نوشی کہ جس کے لیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کردیا، خوب۔ ! تقو یٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچتا ہوں ۔ اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر ناچتا ہوں۔تو ہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہربار ناچتا ہوں ، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے ، اے یار میں ناچتا ہوں۔سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہے اس بے خودی پر میں قربان جاؤں ، کہ پُرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں۔اے ظاہر دیکھنے والے مدعی۔! مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں۔عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے ، کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ، کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں۔میں عثما ن ہارونی، شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں ، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں۔‘‘ بی بی سی اردو سروس کے وسعت اللہ خان نے کیاخوب کہا۔’’کہ روانہ کرنے والوں نے پہلی بار کسی خود کُش کو بالکل ہی غلط ایڈریس تھما دیا۔ اس کی اپنی جان گئی، قلندروں کا کیا گیا؟ جو نہیں رہے ، کل ان سے دوگنے نازل ہو جائیں گے۔ قلندر عجیب تھا ۔ قلندر کی ساری تعلیم اک ہُو میں بند ہے ۔ حق اللہ حق موجود۔۔ زمانے کے ٹھکرائے لوگوں کے سینوں سے نکلتی ہوک ہی اصل میں قلندر ہے۔ اس ہوک میں ہر ان کا درد لپٹ کر پیروں کی دھمک سے ہوتا ہوا کُھلے بالوں کی دیوانہ وار گردش کے راستے آسمان کی جانب کوچ کرجانے کا منظر سیہون کے ہی مقدر میں ہے۔ ‘‘ اپنے محبوب کے عشق میں غلطاں، مٹی میں لوٹ پوٹ ترابی، خاک پر تڑپتے ، کانٹوں پر رقص کُناں اور آگ پر دھمال ڈالنے والے قلندری کہہ رہے تھے کہ یہ سب راز کی باتیں ہیںجسکا بھیدایک عام دنیا دارنہیں جانتا۔دنیا دار صبح و شام انکی ملامت کرتے ہیں لیکن وہ تو عشق الہی میں اپنے آپ کو اس قدر ڈبو چُکے ہیں اور اسکے وصال کی خوشی میں ایک ایسی حد تک پہنچ چکے ہیںجسے دنیا والے نہ دیکھ سکتے اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔وہ اپنی لگن میں مست اور ایسے گہرے خونی دریا میں اترے ہیں کہ جس کی طوفانی لہریں بندے کو نگل لیتی ہیں۔ اس دریا کی ناوٗ شریعت اور اس کا بادباں طریقت ،جس کا رنگ لال اور اس کا لنگر حقیقت ہے۔ آپ اس دریا سے کیوں ڈرتے ہو ۔ اس میں جو گیا واپس نہیں آیا۔ اس میں تو ہزاروں جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ ہم نے بھی دنیاوی لباس اتار پھینکا ہے لہٰذا اب ہمیں کسی طرح کا خوف اورڈر نہیں ہے۔ ۔! انکو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ کمال یہ ہے کہ اوجِ کمال زندہ ہے ،قلندر کا صحن لال ہو چکا مگر اُنکالعل اب بھی زندہ ہے۔لاشوں کے درمیان قلندر کا یہی معجزہ ہے کہ اُنکا قاتل تو تباہ ہوگیا لیکن دھمال اب بھی زندہ ہے۔ حسینی قلندر کہہ رہے تھے کہ عشق حیدر جیت گیا۔کہتی ہے یہ سندھ کی دھرتی لعل قلندر جیت گیا۔۔! قلندر اور قلندری کہہ رہے تھے کہ دھمال رکے گی نہ قوالی، نقارہ بھی بجے گا اور کانوں کو محسور کرتی ہوئی شہنائی کی بلند ہوتی آواز میں لعل مری پت رکھیو بھلا جھولے لالن ، سندھڑی دا، سیہون دا، سخی شہباز قلندر، دمام دم مست قلندر کا ورد بھی جاری رہے گا۔بارود کے سامنے درود کی محفل لگانا اور قلندر کی محبت میں غرق اور موت کے خوف سے کوسوں دورمن کی تال پر رقص کرنے والے دیوانوں کا اب بھی حالت ِ رقص میں ہونا انکی سچی محبت کی گواہی اور دہشت گردوں کو پیغام ہے کہ عشق و مستی کے سچے جذبے والوں کی محبت کو موت سے سرنگوں نہیں کیا جا سکتا۔محبت کی سرشت میں مر جانا ہے جھک جانا نہیں۔جو کوئی محبت کو جھکانے نکلتا ہے وہ خود مٹ جاتا ہے جبکہ محبت زندہ و پائندہ رہتی ہے۔ دشمن جان لے کہ یہ علی شناسی و حق شناسی کا سفر ہے، نہ توسچائی کی تلاش دھماکوں سے رک سکتی ہے اور نہ ہی فقر و درویشی کو جھکایا جا سکتا ہے۔ کوئی نیم دلی سے نعرہ حیدری و قلندریم مستم نہیں لگاتا۔ یہ وہی لگاتے ہیں جنکے سینے میں حیدری خون گردش کرتا ہے۔ اور جس سینے میں حیدری خون کی گر دش ہواسے زندگی سے زیادہ موت سے پیار ہوتا ہے۔کیونکہ اُنکے نزدیک موت تو ایک بہانہ ہے وارث ِ کائنات سے ملاقات کا۔۔۔! قاتل جان لے کہ نہ قلندر انتقام مانگتا ہے نہ غم سے نڈھال قلندری انتقام مانگیں گے۔انکے لبوں پر اب بھی حسینی لعل قلندر ، میرے غم ٹال قلندر کی صدائیں بلند ہیں اور خونخوار خنجر کے نیچے’’ می رقصم‘‘ کی ان بلند ہوتی آوازوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ زیر خنجرمی رقصم کے ذریعے وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دنیا بھر کی ظالم طاقتوں کے سامنے ڈٹ جائو خود جھکنے کی بجائے انہیں جھکا دو کہ یہی قلندر کا پیغام ہے۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker