آرٹیکل

نان ایشو کا کھیل آخر کب تک؟

Column Irfan Sehrai

ہم نت نئے ایشو زکی سیاست کے عادی ہوگئے ہیں،پہلے کراچی کی بگڑتی صورت حال میں رینجر کے کردار کا ایشو،ڈاکٹر ذولفقارمرزا کی گرفتاری، آصف علی زرداری کا ایشو، ایم کیو ایم کی قیادت کے”را“ کے ساتھ تعلقات کا ایشو،صولت مرزا کے انکشافات کا ایشو،عزیز بلوچ کی گرفتاری پر سیاسی رہنماؤں کی بھاگ دوڑ کا ایشو،ڈاکٹر عاصم کی کرپشن اورآیان علی کی منی لانڈرنگ کا ایشو،چھوٹو گینگ اور اس کے سہولت کاروں کا ایشو،دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ کا ایشو،اس کے علاوہ بے شمار عوامی مسائل میں لوڈ شیڈنگ کے ایشو نے پوری قوم کو ایک عرصے سے اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، ابھی ان ایشوز کا شورپوری طرح تھما نہیں تھا کہ پاناما لیکس کے نئے ایشو نے سر ابھار لیا، جس نے اب تک پوری قوم کو بُری طرح اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے،جبکہ اس ایشو کو دبانے کے لئے قدرت نے وزیراعظم کودل کے عارضے کا ایشو دے دیا۔آج کل تجزیہ نگار اور دانشور اس بحث میں وقت گزاری کررہے ہیں کہ دل کا آپریشن ہوا یا نہیں؟ پرائیویٹ کلینک تھا یا گورنمنٹ کا ہسپتال تھا؟اعلاج پاکستان میں کروانے کی بجائے انگلینڈ میں کیوں کروایا گیا؟ہمارا میڈیا ان مباحثوں خود بھی الجھا ہوا ہے اور پوری قوم کو بھی ایک ہیجانی کیفیت سے دوچارکر رکھا ہے،حالانکہ پاکستان سی پیک راہ داری منصوبہ کا ایشو ملک کے لئے اہمیت کا حامل ہے،مگر ہمارے حکمران اور اکابرین یہی چاہتے ہیں کہ عوامی مسائل،ملک کے اندرونی اور بیرونی مسائل سے اجتناب کرتے ہوئے قوم کو ادھر اُدھر کے ایشوز میں الجھائے رکھو،جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہیں،جبکہ میڈیا کو اپنی ریٹنگ اور اشتہارات سے غرض ہے،قوم جائے بھاڑ میں،اسے عوامی مسائل ومشکلات سے کوئی غرص نہیں۔بحیثیت قوم ہماری سوچ بھی ایسی ہوگئی ہے کہ جس دن کوئی نئی خبر،نیا ایشو نہ ہو،ہماری طبیعت بے زار ہونے لگتی ہے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں تحریر بے ا ثر ہوئی، وہاں بریکنگ نیوز بھی اپنی اہمیت کھونے لگی ہیں۔میڈیا نے خود کو محض کاروباری دوڑ میں شامل کر کے اپنی اہمیت کھونا شروع کر دی ہے۔مفاد پرست تجزیہ نگار خود کو اور عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ میڈیا کی افادیت ہمیشہ سے ہے اور رہے گی،چاہے اس کا معیار اور کارکردگی کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ ان تمام رویوں کی تبدیلی کے بڑے ذمہ دارکوئی اور نہیں خودہمارے سیاستدان، حکمران اور میڈیا ہے۔ہم”سب اچھاہے“کی بڑھک بازی پریقین کرکے زندگی گزارنے لگے ہیں، ہم خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ بن گئے ہیں،جھوٹ،فریب ہماری غذا بن چکا ہے،ہم دوسروں سے اچھائی کی امید رکھتے ہیں، مگر خود اپنے منفی رویے کو بھی درست سمجھتے ہیں۔ہم دیدہ دلیری سے
کرپشن کرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے، کیونکہ احتساب کا کوئی خوف نہیں ……کون کرے گا احتساب؟ اس لوٹ گھسوٹ کے کھیل میں سب کھلاڑی بکے ہوئے جبکہ میچ فیکس ہے،ترقیافتہ ممالک میں کام کرنے والے ادارے اور لوگ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں،لیکن ہمارے اگرچند دیانت دار لوگ ایمانداری کے ساتھ بہتر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں،اس میں شک نہیں کہ ہر ادارے میں موجود ان چند دیانتداروں کی وجہ سے ہی یہ ملک قائم ہے،ورنہ لٹیروں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،یہ سلسلہ ہر دور میں تھا، اب بھی ہے اوراس وقت تک چلتا رہے گاجب تک عوام احتساب کے خلاف محض نعرے بازی کی بجائے سراپا احتجاج نہیں بنتے۔اس میں بھی شک نہیں کہ آئیڈیل لیڈر شپ کا فقدان ہے،مگرزیادہ تر انقلاب عوامی جدوجہد کے نتیجے میں آتے ہیں،لیڈر شپ عوام کے اندر سے خود بخود رہنمائی کے لئے سامنے آجاتی ہے،لیکن ان ستترسالوں میں عوام کے مزاج کو اتنا بدل دیا گیا ہے کہ انقلابی سوچ بھی تیسری قوت کی مرہون منت بن گئی ہے۔وہ قوت جب چاہے گی،ملک میں احتساب ہو گااور جب چاہے گی عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوں گے،عوام صرف کٹھ پتلیاں ہیں،جوکبھی سیاست دانوں اور کبھی تیسری قوت کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔الیکشن ایک دکھاوا ہے،ہم سلیکشن کردہ برجوں کے سائے میں خیرات لے کر اپنے جینے کا سامان کررہے ہیں،ہم بڑی قوتوں کی پسندیدہ شخصیات کی حکمرانی میں زندگی گزارنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ہم اپناحق بزورقوت حاصل کرنے کی بجائے،بھکاریوں کی طرح مانگ مانگ کر روٹی،روزی،کپڑا،مکان،تعلیم اور نقلی ادویات لے کر اپنے جینے کا سامان کررہے ہیں۔ہمیں ملک کے وڈیروں، اشرافیہ کے نمائندوں نے گروہوں،طبقوں اور دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ ہم ایک قوم بن کر اُن کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں،بکھرے ریوڑکو چھڑی کے ساتھ قابوکرنا قدرے آسان ہے۔عوام کے شعور کو خواندگی کی گالی دے کر روکا جاتا ہے،جبکہ پاکستان بنانے والے بھی یہی کم تعلیم یافتہ لوگ تھے،مگر قائداعظمؒ کی قائدانہ صلاحتوں کی بدولت آزاد ملک حاصل کیا،آج خواندگی کا نام دے کر شعور سے دور رکھا جاتا ہے،آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا،اُمید کی جارہی ہے کہ وہ وقت بہت قریب ہے،تیسری قوت اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لئے قدم بڑھارہی ہے،سیاسی قیادت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،عوام ہمیشہ کی طرح تماشائی بنے ہوئے ہیں،مگرآخری فیصلے کے لئے انہیں ہی استعمال ہونا ہے،سڑکوں پر آنا ہے اور موقع فراہم کرنا ہے کہ دوسری اور تیسری قوت مل کر کوئی بہتر تبدیلی لاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker