یو۔کے نیوز

عبد الستار ایدھی کی قدرتی موت یا بہمانہ قتل ؟

Abdul Sattar Edhi Death or Murdered
لندن(ایس ایم عرفان طا ہر سے ) عبدالستار ایدھی خدمت انسانیت کا ایک عہد مکمل انسانوں کی بقاءسلامتی کے لیے بناء وردی کے عظیم سپہ سالارایسی تاریخ ساز شخصیت جن کے بارہ میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ انسانوں کے لیے خیر تھے۔ انسانیت کےجذبہ سے سرشار وہ عظیم انسان جو اشرف المخلوقات کی حقیقی معراج کو پہنچا قومی بین الاقوامی ایوارڈز کے علاوہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ عبدالستار ایدھی، جو ’’مولانا عبدالستار ایدھی‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، انسانی خدمت اور فلاح و بہبود کے حوالہ سے عالمی شہرت وعزت رکھتے تھے۔ امریکی جرائد انہیں ’’فادر ٹیریسا آف پاکستان‘‘ کا خطاب بھی دے چکے ہیں۔ عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارتی گجرات کے شہر ’’بانٹوا‘‘ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کپڑوں کے ایک تاجر تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی آئے۔ 1951ء میں انہوں نے ذاتی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر شفاخانہ کھولا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز 1957ء میں اس وقت ہوا جب کراچی میں بڑے پیمانے پر زکام (فلو) کی وباء پھیلی اور اس موقع پرایدھی نے مخیر حضرات کی مدد سے کراچی کے قرب و جوار میں مفت طبّی کیمپ لگوائے۔ ان کے کام سے متاثر ہوکر مخیر حضرات نے انہیں خطیر رقم کا عطیہ دیا، جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری قائم تھی۔ اسی عمارت میں انہوں نے ایک زچہ خانہ اور نرسوں کے لئے ایک تربیتی ادارہ قائم کیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز بھی یہیں سے ہوا بتدریج ترقی کرتے کرتے ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات کا دائرہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے علاوہ دیگر ممالک تک بھی وسیع کیا۔ انہوں نے ایمبولینس سروس کا آغاز صرف ایک ایمبولینس سے کیا اور اب ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے پاس تقریباً ایک ہزارایمبولینس ہیں جن میں ہیلی کاپٹر ایمبولینس بھی شامل ہے۔ ایدھی ایمبولینس سروس، اس وقت دنیا میں کسی بھی این جی او کے تحت چلنے والی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے مفت شفا خانے (کلینکس)، زچہ خانے (میٹرنٹی ہومز)، پاگل خانے، معذوروں کے لئے رہائش اور علاج کے خصوصی مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے، اپنا گھر (لاوارث بچوں کےلیے مراکز)، مُردہ خانے، دارالامان، اسکول اور ایسے درجنوں ادارے اور منصوبے کام کررہے ہیں جن کا مقصد رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود، مولانا عبدالستار ایدھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ انتہائی معمولی قمیض شلوار پہنتے تھے جبکہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گزشتہ 20 سال سے ان کے استعمال میں تھا۔حالیہ دنوں میں جب مولانا عبدالستار ایدھی شدید بیمار ہوئے تو انہیں مختلف مالدار شخصیات اور سیاستدانوں کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کی اور اشارے سے کہا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گے جس کے بعد ان کا علاج ایس آئی یو ٹی میں کیا جارہا تھا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس ایدھی اور صاحبزادے فیصل ایدھی گزشتہ چند سال سے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہر غیر یقینی صورت حال اور قدرتی آفات کے موقع پر قوم کے لیے خدمات پیش کرنے والا عظیم مسیحا آخری ایام میں کس قدر تکلیف اور کربناک صورت حال سے گزرا علاج معالجہ کی بہتر سہولیات میسر نہ ہو نے کے باعث طویل مدت زندگی اور موت کی کشمکش میں بسر کرنا پڑی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی طرح آخری لمحات شدید تکلیف میں گزرے عبد الستار ایدھی طبعی یا قدرتی موت نہیں مرے بلکہ انکی موت کے ذمہ داران اسلامی جمہو ریہ پاکستان کے بدذات اور کرپٹ ترین ظالم حکمران ہیں جن کی نااہلی کی بدولت پاکستان آج بھی صحت اور تعلیم کے میدان میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے بھی کمتر ہے عبدالستار ایدھی کے قاتل میاں برادران ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی ،سندھ حکومت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور ہر وہ حکومتی عناصر ہیں جو کسی نہ کسی طرح صحت عامہ کی ذمہ داری سنبھا لے ہو ئے ہیں کیا عوام کی عدالت سے ان قاتلوں کو بھی سزا ملے گی ؟ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker