آرٹیکل

شان حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

d ashraf jlale

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لائے اور خلافت کی ترتیب میں آپ رسول اللہ ﷺکے چوتھے خلیفہ تھے آپ کی شان و عظمت کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کشف المحجوب شریف میں حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا خوبصورت انداز میں تذکرہ کیا آپ فرماتے ہیں کہ انہی صحابہ کرام میں سے برادر مصطفی ،غریق بحر بلا ،حریق نار ولا ،مقتدائے جملہ اولیاء و اصفیاء ابو الحسن علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرمﷺکے فیوض کا وہ سرچشمہ ہیں کہ جن سے امت کی صدیاں سیراب ہو رہی ہیں ۔قرآن مجید میں متعددآیات میں آپ کی فضیلت کو موضوع بنایا گیا ہے ۔سید المرسلین ﷺنے اپنے متعدد فرمامین میں آپ کی شان کو واضح کیا اور قیامت تک کے لئے امت کو آپ کی شخصیت کے لحاظ سے جو عقیدت ،محبت اور الفت کا جذبہ ہو نا چاہیئے اسے واضح فرمایا ہے ۔حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا مومنین کے ساتھ جو تعلق ہے اس کو اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان اس بارے میں طبرانی کی معجم الاوسط میں موجود ہے ۔نزلت فی علی ’’ ان الذین آمنو وعملوالصالحات سیجعل لہم الرحمن ودا‘‘یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اللہ تعالی ان کے لئے دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا۔ آپ کا ایمان اور عمل اس درجے کا ہے اور آپ اس عروج پر ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کے ایمان اور عمل کو قبول کرتے ہوئے قیامت تک کے لئے آپ کی محبت کو عام کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔قرآن مجید کی خبریں کتنی سچی ہیں اور اہلسنت کے مزاج کتنے ستھرے ہیں کہ صدیوں کے گزرجانے کے باوجود آج بھی قرآن مجید کے وعدہ کے مطابق ہمارے سینے حب حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالی نے جو وعدہ فرمایاتھا اس کے مطابق آج بھی وہ محبت سینوں میں جلوہ گر ہے ۔اس محبت کے لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کا زمانہ پائے بغیر ،آپ کی زیارت کئے بغیر ،آپ کی صحبت میں بیٹھے بغیر صدیوں بعد دلوں کے محلے اور بستیاں آپ کی محبت میں آباد ہیںاس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے اہلسنت کو وہ ستھرا مزاج عطا فرمایا ہے ہماری مٹی اگرچہ برصغیر کی ہے مگر سینوں میں نور مدینہ شریف کا ہے جس کی وجہ آپ کی محبت سینوں میں جلوہ گر ہے اور پھر یہ ایسی محبت ہے اس کا اجر دنیا میں ہی نہیں بلکہ آپ کی محبتوں کا جھنڈا میدان حشر میں بھی لہرا ہو گا ۔رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ میدا حشیر میں جس وقت ایک شخص جو دنیا میں دوسرے سے پیار کرنے والا تھا حالانکہ ان دونوں کی آپس میں ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ان میں ایک مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں تھا ۔ان میں ایک محب ہے اور دوسرا محبوب ہے ان کی آپس میں ملاقات نہیں ہو ئی لیکن ان کا آپس میں پیار سچا ہے ،وہ پیا ر آلودگی اور مادہ پرستی والا نہیں توان دونوں کو محشر کے دن اکٹھا کرے گا اور اللہ تعالی فرمائے گا یہ وہ ہیں جن سے تو میرے لئے پیار کرتا تھا ۔اس واسطے حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو ہماری محبت ہے صحابہ کرام ،اہلبیت اور اولیاء کاملین سے جو ہمارا تعلق ہے اس تعلق کی وجہ سے حشر کے دن فائدہ پہنچنے والا ہے تو یہ وہ محبت ہے کہ جس کا جھنڈا میدان حشر میں بھی لہرا ہو گا ۔یہی اس محبت کی صداقت ہے کہ ان نفوس سے محبت اللہ تعالی کی محبت کی وجہ سے ہے تو اللہ تعالی کی محبت کا گلاب کبھی بھی مرجھا نہیں سکتا ہمیشہ وہ گلاب تروتازہ رہتا ہے ۔اس محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان خدا رسیدہ بنتا ہے اور اس کا دل اللہ تعالی کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کو اپنے دین کی محبت اور اپنے نبی علیہ السلام کی شریعت کا ذوق اور اس کی چاشنی بھی عطا فرماتا ہے ۔رسول اکرم ﷺنے حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی جو تربیت کی اور آپ کو فیوض و برکات سے نوازا ان کا ایک ایسا جہان ہے کہ جسکا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا ۔اللہ تعالی نے آپ کو جو ولایت کا تاج عطا کیا ہے اس کی روشنی منفرد درجے کی ہے آپ کی ہر شان ہی عجیب ہے اور آپ کا ہر مقام ہی بڑا عجیب ہے انہیں جو کچھ بھی ملاہے وہ ہمارے نبی علیہ السلام کی نسبت کی وجہ سے ملا ہے اور رسول اللہﷺکی عظمت کے صدقے میں ملا ہے ۔اس واسطے حب ِحضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ کہیں وہ محبت رسول اللہﷺکی عداوت کے بدلے میں نہ ہو اور کسی صحابی کے بغض کے عوض میں نہ ہو بلکہ حبِّ علی رضی اللہ عنہ حقیقت میں اطاعت الہی ہے اور رسول اکرمﷺکی غلامی ہے جس کے نتیجے میں ان کو اتنی شان اور کمال ملا ہے وہ شان بیان کرتے کرتے زبانیں تھک جائیں گی مگر وہ شان ختم نہیں ہو گی ۔مشکوۃ المصابیح میں کہ رسول اکرمﷺنے خیبر کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’کل اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ تعالی کا محب ہے اور اللہ کے رسولﷺکا محب ہے اور اللہ تعالی ان سے پیار کرتا ہے اور اللہ کے رسولﷺبھی ان سے پیار کرتے ہیں اور اللہ تعالی ان کے ہاتھ پر فتح و نصرت عطا فرمائے گا ‘‘اس مقام پر رسول اکرمﷺنے جو خبریں دی ہیں ان میں پانچ بڑے اوصاف ہیں ان میں چار پانچویں کا باعث اور دلیل ہیں ۔ان پانچ میں سے چار اوصاف کے لحاظ سے اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہے تاکہ پتہ چلے جو محبت اہل بیت اطہار ہے اس کے لحاظ سے سینوں کی صورتحال کیا ہے ؟سیر اعلام النبلاء میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے امیر بننے کا سوچا ہی نہیں تھا ۔اس موقع پر تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی خواہش کررہے تھے کہ کاش یہ جھنڈا مجھے دے دیا جائے کیونکہ رسول اللہﷺنے فرمایا تھا کہ کل میں جھنڈا اس کو دوں گا جو فاتح خیبر بنے گا ۔رات گزر رہی تھی صحابہ کرام کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی کہ وہ کون ہے جس کو جھنڈا دیا جائے گا جب صبح ہوئی تو رسول اللہﷺنے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہاں ہیں تو صحابہ کرام نے بتایا کہ یا رسول اللہﷺان کی تو آنکھیں خراب ہیں وہ آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے یہاں موجود نہیں ہیں تو رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ان کو بلا کے لے آؤجب بلایا گیا تو رسول اللہﷺنے ان کے آنکھوں میں اپنا لعاب دھن لگا کے جھنڈا انہیں عطا فرمایا تو اللہ تعالی نے اسی ذات کو فاتح خیبر بنا دیا ۔اس مقام پر جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اوصاف بیان کئے گئے وہ بڑے قابل غور ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے پیار کرتے ہیں ۔رسول اکرمﷺکے علم غیب کے لحاظ سے چند باتیں بالکل واضح ہیں رسول اکرمﷺکا اپنا معاملہ کہ میں ان سے پیار کرتا ہوں تو یہ اپنے دل کی بات ہے مگر یہ کہنا کہ رب ان سے پیار کرتا ہے یا یہ بیان کرنا کہ یہ رب سے پیار کرتے ہیں یا یہ بیان کرنا کہ یہ مجھ سے پیار کرتے ہیں کیونکہ یہ دل کی بات اور دل کا معاملہ ہے یہاں پر تین غیب کی خبریں دے کر چوتھی غیب کی خبر یہ دی کہ میں کل جھنڈا دوں گا اور پھر جس کو دوں گا وہ فاتح خیبر بھی بن جائے گا ۔اس سے پتہ چلا کہ وہ سوچ فرسودہ سوچ ہے جو یہ کہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کو کل کی خبر نہیں اگر اللہ کی عطا سے کل کی خبر نہ ہوتی تو پھر آپ یہ کیوں فرماتے کہ کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا اس کے ہاتھ پہ اللہ تعالی فتح عطا فرمائے گا الہذا یہ ماننا پڑے گا یہ وہ عظیم بارگا ہ ہے جہاں ہر وقت غیب کے چاند طلوع ہوتے ہیں اور ایسی علوم کی برکات ہوتی ہے کہ جب بھی گفتگو فرماتے ہیں تو متعدد غیب کی خبریںارشاد فرمادیتے ہیں ۔رسول اکرم ﷺکے علم غیب شریف کو ماننا پندرھویں صدی کے مسلمانوں کا عقیدہ نہیں بلکہ یہ تو خیبر میں موجود صحابہ کرام کا بھی یہی عقیدہ تھایہ قرون اولی کے مسلمانوں کا عیقدہ تھا ورنہ جس وقت رسول اللہﷺکل خیبر کے فتح ہونے کی خبر دی تو اگر تو حید کسی اور چیز کا نام ہوتا تو پھر صحابہ کرام کے دل میں اس کا شوق ہی پیدا نہ ہوتا ،صحابہ کہتے کہ خبر تو دے رہے ہیں پتہ نہیں کل کیا ہو گا اگر ایسی سوچ ہوتی تو کسی کے دل میں اس کی تڑپ پیدا نہ ہوتی اگر صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے لوگ اس کی تمنا کر رہے تھے تو ماننا پڑے گا اس تمام صحابہ کرام کا عقیدہ تھا کہ ہمارے محبوب علییہ السلام کی آنکھ نے جسے فاتح دیکھا ہے جھنڈا اسے ہی عطا فرمائیں گے اور جسے عطا فرمائیں گے وہ ضرور فاتح بن جائے گا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج جو اہلسنت کی سوچ ہے وہ گھڑی ہوئی سوچ نہیں ہے بلکہ یہی سوچ خیبر کے میدان میں صحابہ کرام کے پاک ذہنوں میں جلوہ گر تھی کہ ہمارے نبی علیہ السلام غیب کی خبریں جو ارشاد فرماتے ہیں وہ یقینا سچی خبریں ثابت ہوتی ہیں ۔اس میں رسول اللہﷺنے یہ بھی بتا دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت کرنے والے ہیں یعنی جب اللہ تعالی کی محبت ہے تو اللہ کے رسولﷺکی محبت بھی ضروری ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’میرت ساتھ اس واسطے پیار کرو میرا رب بھی مجھ سے پیار کرنے والا ہے ‘‘
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی کی شخصیت کے خدو خال کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرمﷺنے اس کو واضح کر دیا کہ آپ کو جو مقام ملا ہے وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور میری اطاعت کی وجہ سے ملا ہے اور جو ان کی اقتدا میں انہیں محبتوں کے زیر سایہ بڑھے گا اس کو بھی کامیابی ملے گی لیکن جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کا دعوی کرے مگر اللہ اور رسولﷺکی محبت کا باغی بن جائے وہ محبت ہر گز مقبول محبت نہیں ہوگی اور وہ محبت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت بھی نہیں ہو گی ۔اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود جن ذوات کی محبت میں ڈوبے ہوئے اور ان محبتوں کی ہروقت لذت محسوس کرتے ہیں تو حب علی رضی اللہ تعالی عنہ جہاں جلوہ گر ہو گی وہاں ان ذوات کی محبت بھی موجود ہو گی اورخود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جن سے محبت کرتے ہیں ان کی محبتوں کا سمندر ضرور ٹھاٹھیں مارتا نظر آ رہا ہو گا ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر فتح کیا تو اس میں آپ کی طاقت کا اندازہ اس سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خیبر جس کا دروازہ چالیس مرد بھی نہیں اٹھا سکتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ایک ہاتھ سے پکڑکے ڈھال کے طور پر استعمال کیا آپ کی کیا عظمت ہے اور کیا شان ہے کہ ان کو رسول اللہﷺنے اس کا حکم بھی دیا ،فیض بھی دیا اور طاقت بھی عطا کر دی ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے ہاتھ پہ فتح و نصرت عطا فرما دی ۔اللہ تعالی آپ کے مرقد پر نور پہ کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker