آرٹیکل

خراسان غزوہ ہند کشمیر اور شام

logo smirfan tahir

وطن کی فکر کر نا داں                                                                 مصیبت آنے والی ہے                                           
علم و دانش کے بحر بیکراں اور دانشوروں کے شہنشاہ حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں حال کے لمحے کو پہچا ننے والے دنیا میں آنے والے زمانوں کو جا ننے والے ہو تے ہیں ۔ حال آگاہ مستقبل آگا ہ ہوجا تا ہے ۔ حال آشنا ما ضی آشنا ہے ۔ حال کا ادراک ،ادراک حقیقت ہے اور اگر حقیقت کا ادراک میسر آجا ئے تو تخیل کا ادراک مل جا تا ہے یعنی مستقبل کا ادراک آسان ہو جا تا ہے ۔ حال سے با خبر ہو نے والا یا دوں کو پہچانتا ہے یعنی ماضی سے با خبر ہو جاتا ہے ۔ حال آشنا کے سامنے ماضی اور مستقبل کے جلو ے موجود رہتے ہیں ۔انتہا پسندی اور دہشتگردی نے اسوقت پو ری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے کوئی سپر پاور ہو یا معاشی طاقت سبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلا ف شب و روز نبردآزما دکھائی دیتے ہیں ۔ اس شعبہ میں تحقیق اور ادراک رکھنے والے ان تمام معاملا ت سے واقف ہیں اس منفی ایجنڈے کو بڑھاوا دینے والے کون اور کس کی ایماء پر کام کرنے والے ہیں ان کے سہولت کا ر کون ہیں اور کون ان کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کررہا ہے ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ جہا ں دہشتگرد انتہا پسند اور دنیا کا امن و سکون تبا ہ و برباد کرنے والے ایک اکا ئی کی حیثیت اختیا ر کرتے چلے جا رہے ہیں تو وہا ں مہذب معا شرے میں بسنے والے اہل علم و عقل کیوں کئی حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں ۔ براوقت آنے سے قبل ہی اپنا آپ سدھا ر لیا جا ئے تو بہتر ہے فطر ت کے اشارے واضح نظر آرہا ہے ہیں لیکن عقل و سوچ اور دانائی کے باوجود بھی پتہ نہیں کوئی بین الا قوامی طا قتیںصرف اپنے آپ کو محفوظ بناتے ہو ئے ان عالمی سازشوں کو فراموش کرنے کی کوشش میں مبتلاء ہیں ۔ وقت نے جہا ں طالبان کو جنم دیا اور انہو ںنے دنیا کے اندر بد نظمی افرا تفری اور انتشار کو فروغ دینے میں تمام تر صلا حیتیں اسامہ بن لا دن اور ملا عمر کے زیر سائیہ بروئے کا ر لائیں علم و حکمت سے آشناء افراد کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔ افغان طالبان نے امارت اسلامی کے قیام کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا جو کہ غیر اسلامی اور غیر شرعی کہلا تا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن جنگجوئو ں نے تین سپر طاقتوں کو شکست فاش دی ان کا معرکہ حق و باطل جب اسلامی جمہو ریہ پاکستان کے ساتھ شروع ہوا تو اقوام عالم کی آنکھ نے یہ تما شا بھی دیکھا کہ غاروں اور جنگلو ں میں رہنے والی وہ مخلوق جو خود کو نائب رسول ، جند اللہ اور اللہ کے حقیقی سپا ہی سمجھتے ہیں ان کو اپنی بلو ں میں گھسنا پڑا ۔ پاکستان کی جیت یا کامیابی کے اندر کسی صاحب اقتدار حکومت یا سیاسی قوت کا اس میں ذرا سا بھی عمل دخل نہیں ہے بلکہ جس پاک سرزمین کو مدینہ شریف کے بعد دوسرے نظریا تی ملک کا نام دیا جاتا ہے پر خالق و مالک اور اس کے حبیب ﷺ کا خاص فضل و کرم ہے جس کی بناء پر رب نے باوجودجمہو ریت و آمریت کی نادانیوں اور نا اہلیوں کے رب کائنا ت نے دشمن کے ہر حربے سے محفوظ رکھا ذہن نشین رہے کہ پاک افغان جنگ دونوں ملکوں کی جنگ نہیں تھی اور نہ ہی اس میں دونوں کی خواہشات شامل تھیں لیکن مفادات کب اور کس وقت دو بھائیو ں کے درمیا ن آجائیں اور خون کے رشتے بھی سفید ہوجائیں یہ بھی ایک فطری ردعمل کا حصہ ہے ۔ ماضی میں افغانستان کو پہنچنے والے گزند اور طالبان کی مجمع طا قت کو تقسیم کرنے میں پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے کلیدی کردار ادا کیا جب آپ کسی کی آنکھوں کے سامنے اس کے بھائی کو ذلت کی موت دیں اسکی بہن کو بیوہ بنا دیں اور اسکے بچوں کے مستقبل کو دائو پر لگا دیں تو پھر صبر و برداشت کا خاتمہ عین فطرت ہے اور ردعمل میں کوئی بھی معاف نہ کرنے والا بدلے کی آگ میں جلتے ہو ئے وہ سب کچھ کرگزرتا ہے جس کی کسی انسان کو امید نہیں ہوتی ۔ اہل علم بے شک ایسے کسی اقدام کو پسند یا سپورٹ نہیں کرتے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کئی معاشروں میں جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جا تا ہے اور انسان وہ کر گزرتا ہے جو انسانیت کی حدوں کو کراس کر جا ئے ۔ پرائی جنگ نے پاکستان کو حالت جنگ میں مبتلاء کرتے ہو ئے ہزاروں جانوں کے ضیاع کا تحفہ پیش کیا کئی افراد بے گھر ہو ئے اندرونی خلفشار اور تخریب کاری نے ملک کا نام اور وقار پو ری دنیا میں بدنام کیا ۔ غیبی طاقت سے ضرب عضب کی فتح یقینی ہے ۔ کیونکہ پاکستان نور ہے اور نو ر کو زوال نہیں ۔اہل علم و دانش اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ خراسان کے بارے میں جن سیاہ جھنڈوں والے لشکر کی بات کی یا کہی گئی ہے وہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری اور داعش کے امیرالمومنین ابو بکر البغدادی کی زیر قیادت و سعادت کبھی بھی رونما نہیں ہوسکتا ہے اس حقیقت کو پرکھنے کے لیے بھی امام مہندی اور حضرت عیسیٰؑ کے لشکروں کے مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ کوئی بھی بے راہ روی اور گمراہی کا شکا ر شخص اٹھ کر خلا فت اسلامی اور شریعیت کے نفاذ کا دعویٰ کردے تو با شعور اور با کردار مسلمان بھیڑ چال کی طرح اسکی پیروی نہیں شروع کردیں گے بلکہ حقیقت کی طے تک پہنچنے کی سعی ضرور کریں گے اور بے شک ہر انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ آگ سے محفوظ رکھے گا ایک وہ جو ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا ۔ بر صغیر پاک و ہند کے رہنے والے آر پار تقسیم کے باوجود مشتر ک محبتوں میں جکڑے ہو ئے ہیں بھا رت کے تاج محل ، اسکندریہ اور قطب مینا ر کے ساتھ ساتھ بارگاہ نظام الدین اولیاء ، ہند الولی اجمیر شریف ، امیر خسرو اور غالب کے پرستار یہا ں پاکستان میں بے پناہ موجود ہیں ۔ اسکے برعکس پاکستان میں شاہی قلعہ ، با دشاہی مسجد ، شالا مار باغ اور رنجیت سنگھ کی سمادھی کے ساتھ وابستہ افراد بسائو اوقات سرحدوں کے خاتمے کا اعلان کرتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں ۔ دانشور ادیب صحافی فنکا ر اور شاعر یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ محض یہ نسبتیں ہی کافی نہیں ہیں تاریخ اسلام کچھ دیگر اکا ئیو ں پر بھی روشنی ڈالتی ہو ئی دکھائی دیتی ہے ۔ بھا رت میں رہنے والے 90 فیصد مسلمان لا تعداد ہو نے کے باوجود کسمپرسی میں مبتلا ء ہیں ۔ ہر ملک و سلطنت کی تا ئید و حمایت کرنے والے بے شک سہولیا ت اور آرا ئش و اسائش سے نوازے جا تے ہیں ۔ شام کے بعد سرزمین ہندو پاک وہ ہے جس کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ایک حدیث مبارکہ درج کی ہے کہ میں عرب ہو ں لیکن عرب مجھ میں نہیں اور میں ہند میں نہیں لیکن ہند مجھ میں ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج اس خطے میں کیا مسائل چل رہے ہیں کشمیریوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں اور تمام عالمی طاقتیں کوئی بھی حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ کشمیر کی پیچیدگی کو سمجھنے کی موجودہ تنا ظر میں زیادہ ضرورت ہے حالیہ عالمی دہشتگرد تنظیم القا عدہ کی طرف سے با قاعدہ برانچ کا اعلان کیا گیا ہے جو مقبوضہ اور آزادکشمیر کے معاملا ت میں اپنی ذمہ داریا ں نبھا ئے گی ۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد عاصم عمر کو القا عدہ کشمیر برانچ کا سربراہ اور اسامہ محمود کو ترجمان قائم کیا گیا ہے ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ بھا رت جن کشمیریوں پر اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ہمراہ ظلم و ستم کے پہاڑ گرارہا ہے بوڑھے افراد کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے خواتین کی بے حرمتی کے واقعات عام ہیں یعنی کشمیری قوم کے لیے عرصہ حیا ت تنگ کردیا گیا ہے اور پھر بھی دنیا بے فکر ہے کہ وہ لوگ کچھ نہیں کریں گے اگر منفی قوتوں نے انہی ظلم و تشدد اور زندگی میں موت کا مزہ چھکنے والی کشمیری قوم کو اپنے مزموم عزائم کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تو انتقامی کاروائی میں کہیں ریاست جمو ں و کشمیر کی صورت میں ایک اور شام نہ بن جا ئے داعش اور القا عدہ دونوں موجود ہ حالا ت کے تنا ظر میں اتفا ق و اتحاد کے ساتھ دنیا کا امن تباہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن اگر اسی بے خبری اور لا علمی کا مظاہرہ کیا گیا تو پھر داعش اور القا عدہ کی سرگرمیوں کو براعظم ایشیاء کے ساتھ ساتھ عالمی امن کو تباہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جو لوگ اپنی زندگی کے خاتمے کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں تو انکی ان حرکا ت و سکنا ت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جن کشمیریوں کے بچوں اور بھائیوں کو انکی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا ہے اور جو لوگ انتقام کی آگ میں گذشتہ نصف صدی سے زائدجل رہے ہیں ان کو مذموم عزائم کے لیے استعمال سے بچانے کے لیے عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں اور رترقی یا فتہ معاشروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ اسلیے با خبر رہیں کہ جس نے بھی اس خطہ میں جنگ کو ہوا دی تو دوسرے تو متاثر ہونگے ہی لیکن اپنا گھر بھی محفوظ نہ رہے گا ۔ شام اور کشمیر کی اس تحریک کے پس پشت ہی غزوہ ہند اور خراسان کا قیام مخفی ہے ۔ اس حساسیت کو محسوس کرتے ہو ئے کوئی پر امن راستہ استوار کرنا ہو گا ۔ یہود و ہنود کو انکی منفی شرارتوں اور کھیلو ں سے نہ روکا گیا تو پھر پو ری دنیا کا امن تبا ہ و برباد ہو جا ئے گا ۔ کیونکہ کوئی بھی مہذب اور با علم و عمل معاشرہ جنگ و جدل خون خرابے اور فساد کو ہر گز ہرگز پسند نہیں کرتا ہے یہ فکر و تد بر اور قربانی کا وقت ہے ، تو بہ و استغفار کا وقت ہے ، کھرے اور کھوٹے کے الگ ہو نے کا وقت ہے اور جو بایا وہی کاٹنے کا وقت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker