آرٹیکل

کابل ،کاشی ، کاشان اور ’’ ُپاکستان‘‘

MY NEW LOGO

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب کے اختتام پر مرزا غالب کا یہ شعر پڑ ھا کہ۔۔ ’’نونت گر بے نفسے خود تمان است جو۔ کاشی پا بے کاشان نین گام است۔‘‘ یعنی ’’اگر ہم اپنا ذہن بنا لیں تو کاشی اور کاشان کے درمیان فاصلہ صرف نصف قدم کا ہو گا۔‘‘ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک انڈیا، افغانستان اور ایران کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ اور چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر کے معائدے کے بعد پاکستان اور چین اقتصادی راہداری منصوبے اور خطے میں اس کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے نئی بحث و سوالات نے جنم لیا ہے۔ نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کریڈور کے نام سے شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت بلقان کی ریاستوں سے ہوتے ہوئے یورپ تک رسائی ممکن بنائی جائے گی جس سے انڈیا اور یورپ کا درمیانی فاصلہ ۶۰ فیصد کم ہوجائے گا۔ چاہ بہار کو افغانستان اور تاجکستان سے منسلک کرنے کے لئے انڈیا وہاں مزید سڑکوں کا نیٹ ورک بنانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ وہ مشہد اور زاہدان کے درمیان ۹۰۰ کلو میٹر طویل ریلوے لائن بھی بنائے گا۔ گوادر سے ۱۰۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ایرانی صوبہ بلوچستان کے علاقے سیستان میں واقع اس بندرگاہ کو ترقی دینے کا خیال ۲۰۰۳ ء میں واجپائی کے دور میں سامنے آیا مگر پہلے خطے کی صورتحال اور بعد ازاں ایران پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں اسکی راہ میں رکاوٹ بنیں۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہونے سے پہلے انڈیا ایران سے تیل خریدنے والا دوسرا بڑا ملک تھا لیکن عالمی پابندیوں سے دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات متاثر ہوگئے ۔ اب ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری پروگرام پر معائدے کے بعد انڈیا دوبارہ ایران سے تعلقات استوار کر رہا ہے۔ سہ فریقی معائدے کے تحت انڈیاکی ایران اور افغانستان سمیت وسطی ایشاء اور روس کی منڈیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی، جبکہ افغانستان اپنی مصنوعات بیرونی دنیا میں بجھوانے کے لیے پاکستان کے بجائے ایرانی بندرگاہ متبادل کے طور پر استعمال کر سکے گا۔اب ایک طرف انڈیا کو پاکستان کے بجائے ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا ء تک رسائی مل گئی ہے تو دوسری جانب گوادر کے بالکل ساتھ اس نے اپنی موجودگی یقینی بنا کر پاکستان کے لئے خطرات میں اضافہ کردیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انڈیا وہاں کروڑ وں کی سرمایہ بھی کرے گا جہاں پروہ یوریا کھاد اور ایلومینم بنانے کے کارخانے لگائے گا جس سے اسے ایرانی گیس سے سستی کھاد بنانے میں مدد بھی ملے گی۔انڈیا کے علاوہ چاہ بہار میں جاپان بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کا ری کا ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میںفریقین کے مابین فروری میں ایک معائدہ بھی ہو چکا ہے جس کے تحت ایران میں سرمایہ کاری کرنے والی جاپانی کمپنیوں کو ۱۰ ارب ڈالر کی گارنٹیاں فراہم کی جائیں گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہد ہ ہے جس کے تحت افغانستان اپنی مصنوعات واہگہ کے راستے انڈیا اور کراچی کی بندرگاہ کے راستے باہر بجھواتا ہے۔ شمال مشرقی افغانستان سے واہگہ اور کراچی کی بندرگاہ تک کا سفر انتہائی قریب ، سہل اور ایک ایسا راستہ ہے جو سال کے بارہ مہینے کُھلا رہتاہے۔ اسی طرح جنوبی مشرقی افغانستان سے بذریعہ کوئٹہ کراچی پہنچنا بہت آسان ہے۔ جب کہ دوسری طرف شمالی مشرقی افغانستان سے ایرانی بندرگاہ تک کا راستہ کافی طویل ہے اور یہ سردیوں میں برفباری کی وجہ سے کئی کئی ہفتوں تک بند بھی رہتا ہے ۔ان تمام عناصر کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ معائدے کے باوجود افغانستان کو ایک اور معائدے کی ضرورت کیوں پڑی۔؟سہ فریقی معائدے سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کیا اثرات پڑیں گے اور کیا پاکستان کے تین پڑوسیوں کا اتحاد اُسے اقتصادی تنہائی کا شکارکرسکے گا۔۔؟ تجزیہ نگاروں کا خیا ل ہے کہ تینوں ممالک پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے ، انڈیا کے ساتھ تو معاملات شروع دن سے ہی خراب ہیں ، اب افغانستان اور ایران بھی زیادہ خوش نہیں ہیں۔ افغانستان پاکستان پر اپنا دارومدار کم کرنا چاہتا ہے اور ایران پاکستان کو دکھاناچاہتا ہے کہ پاکستان تعاو ن نہ بھی کرے تب بھی اس کے پاس آپشن موجود ہیں۔ ماضی میں ایران نے متعدد بار پاکستان سے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن پاکستان کی جانب سے سرد مہری کیوجہ سے تعلقات کی نوعیت ا س نہج پر آ پہنچی ہے۔پاکستان کی جانب سے سرد مہری دیکھ کر ایران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے میں سنجیدہ نہیں ہے، اس لیے ایران نے انڈیا سے تجارتی تعلقات بڑھانے کیساتھ ساتھ متبادل راستے تلاش کرنے شروع کر دئیے ہیں اور چاہ بہار اسکی ابتدا ہے۔دوسری طرف پاک ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کے منصوبے جن پر کئی عرصہ پہلے دستخط ہو چکے ہیں اپنی تکمیل کی راہیں دیکھ رہے ہیںلیکن ہم امریکی اور سعودی دباؤ سے آزاد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ایران خطے میں ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر خود کو منوانا چاہتا ہے ۔ بالخصوص معاشی پابندیوں کے عہد میں اس کی معیشت کو جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہے ۔ ایک طرف اس نے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے تو دوسری جانب چین کے ساتھ بھی ریلوے کے ذریعے تجارت کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی تجارتی ٹرین چین سے ایران ۱۰۳۹۹ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کہ چودہ دنوں میں تہران پہنچ چکی ہے۔ فریقین کے درمیان تجارت کو بڑھا کر اگلے دس سالوں میں ۶۰۰ ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا ۔چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری خلیجی سیاست پر بھی اپنے اثرات مرتب کرے گی کیونکہ مودی اپنے گزشتہ دورہ سعودی عرب اور دورہ عرب امارات میں بھی اربوں ڈالروں کے معائدے کر چکے ہیں جن میں عرب امارات کے ساتھ ۷۶ ارب ڈالر اور سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معائدے ببھی شامل ہیں۔ انڈیا کے تقریباََ ۷۰ لاکھ سے زائد لوگ خلیجی ممالک میں روز گار حاصل کیے ہوئے ہیںجن سے انڈیا کو سالانہ ۳۰ ارب ڈالر سے زیادہ کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔اسکے برعکس چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے چین نے ۴۶ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے مگر ابھی تک دونوں جانب سے یہ منصوبے انتہائی سُست روی کا شکار ہیں ۔ جس کی ایک وجہ تو پاکستان کی اس روائیتی افسر شاہی کی نااہلی بتائی جاتی ہے جو ترقیاتی بجٹ بھی پورا خرچ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس لئے اتنے بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل کی امید کیسے وابستہ کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین راہداری سمیت کئی معاملات میں باہمی اختلاف بھی ہیں جس سے منصوبے کی بروقت تکمیل کے بارے میں خدشات جنم لے چکے ہیں۔ایران کیساتھ کئے گئے گیس اور بجلی کے معائدے بھی تکمیل کے منتظر ہیں۔ ایران جانے والے زائرین کے حوالے سے سیکیورٹی کی خراب صورتحال سمیت ہم اسکے خلاف بننے والے نام نہاد اتحاد کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ہمارے آرمی چیف کی ریٹائرمنت کے بعد اس اتحاد کی بھاگ ڈور سنبھالنے کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔ایرانی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان اور چاہ بہار میں انویسٹمنٹ کرنے کی پیشکش کو مثبت لینے کے بجائے ہم نے پہلے سے گرفتار گلبوشن کا عین اسی وقت شوشا چھوڑا جب ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تشریف لا چکے تھے۔ا ن حالات میں چاہ بہار میںانڈیا کی موجودگی اور پھر ایران پاک ایران تعلقات میں بگا ڑ خطرناک نتائج کی نشاندہی ہے ، جس سے پاکستان میں مسلکی تنازعات بھی زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ سکتے ہیں۔ تازہ ترین مذہبی بنا پر دہشت گردی کی لہر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے۔ پاکستان میں مسلکی جنگ کی وجہ سے بھی ایران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک مسلک کی حمایت کرتی ہے ۔ ہمارے ارباب ِ اختیار یہ بات بھی مکمل طور پر بھول گئے ہیں کہ ایران ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔قائد اعظم نے پاکستانی خارجہ پالیسی میں ایران سے تعلقات کو دیگر تمام اسلامی ممالک پر فوقیت دی ۔قائد اعظم نے ہی سب سے پہلے ایران کے لیے راجہ غضنفر علی خان کو پاکستان کا پہلا سفیر نامزد کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے سب سے پہلے ایران ہی کا دورہ کیا۔ ایران ہی کے رضا شاہ پہلوی وہ پہلے غیر ملکی سربراہ تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو دورہ کیا۔ ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس کے ساتھ پاکستان نے سب سے پہلے ــ ’’ فرینڈ شپ‘‘ کا معائدہ کیا اور جسے پاکستان نے سب سے پہلے ’’ موسٹ فیورٹ نیشن ‘‘ کا درجہ دیا۔پاکستان کو سب سے پہلے ایران نے ہی تیل اور گیس کی رعائیتی شرح پر فراہمی کی سہولت مہیا کی۔ ایران ہی تھا جس نے بلوچستان میں بغاوت کی پہلی تحریک دبانے میں سب سے پہلے ہماری مدد کی۔ایران نے ہی ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو ۹۰ سیبر جیٹ فائٹر طیارے اور ا۱۹۷ء کی جنگ میں ۳۰ جنگی ہیلی کاپٹر بطور امداد دیئے تھے۔ ۱۹۷۹ء کو ایران میں آنے والی اسلامی انقلابی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ایران ہی نے سب سے پہلے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ایران ہی پہلا اسلامی ملک ہے جہاں مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کی شاعری پر سب سے زیادہ کام ہوا۔ایران ہی وہ اسلامی ملک ہے جس نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمیشہ کھل کر پاکستان کو ساتھ دیا۔پاک بھارت جنگوں میں ایران کے ساتھ ملنے والی سرحد ہمیشہ محفوظ رہی اور کبھی بھی پاکستان کو اس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہاں فوجی تعینات کیے جائیں۔ایران کی طرف سے کبھی بھی پاکستان میں در اندازی یا دہشت گردی کی کاروائیاں نہیں کی گئیں۔ایران کے ساتھ ملنے سرحد ہمیشہ محفوظ رہی اور پاکستان کو کبھی بھی ایران سے شکایت نہیں رہی۔ایران ہی ایسا ملک ہے جوہر سال پاکستانی طالبعلموں کو میڈیکل ، انجینرنگ اور دوسرے شعبوں میں سالہا سال تک مفت سکالر شپ دے رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں ضرورت مند اور مستحقین طلبا ء اپنی تعلیم مکمل کرکہ اپنے متعلقہ شعبو ں میں ملازمتیں اختیار کر رہیں ہیں۔ پاک ایران تعلقات کیساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ افغانستان سے بھاگنے والے امیر المو منین خواہ وہ اسامہ بن لادن ، ملا عمر، ملا برادر، ملا اختر منصور ہو یا حقانیوں کا نیٹ ورک یا ملا ہیبت اللہ ۔ یہ سب کیسے اپنی تھکن اتارنے یا آخری سانسیں لینے اور اپنے رب سے آخری ملاقات کرنے پاکستان آ جاتے ہیں ا ورپھر کیسے پاکستان سے جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر لیتے ہیں یا یہاں مکان کرائے پر لیکر رہنا شروع کردتے ہیں یا یہاں سے علاج کرواتے ہیں اور پھر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں اور سالوں بعد پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پاکستان سے علاج کروایا، وہ پاکستان سے پکڑے گئے ہیں یا مارے گئے ہیں۔ ہر شخص انگشت بدنداں ہو کر ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ ، یہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔؟ اسامہ بن لادن اور ملا منصور کی ہلاکت کے بعد بنیادی طور پر پاکستان کی افغانستان کے معاملے میں طویل عرصے سے جاری رکھی جانے والی ہماری پالیسی کی موت ہے۔ لیکن ہم بات مان نہیں رہے۔دنیا جانتی ہے کہ سعودی سرمائے، امریکی عسکری امداد اور بھرپور مالی امداد کے ساتھ طالبان کو ایک موثر قوت ہم نے بنایا ۔ دنیا کہہ رہی ہے کہ یہاںدہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیںلیکن ہم یہ سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھے لیکن ہم پھر بھی نہیں سنبھلے۔ حالانکہ موصوف نے پاکستان میں اپنی گرفتاری سے لیکر بگرام اور گوانتا نوموبے میں قید و بند کی داستان تحریر کرتے ہوئے واضع کردیا تھا کہ افغان طالبان اب پاکستان کے ارباب اختیار کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ طالبان نے اسی وقت سے لیکر اپنی پالیسی تبدیل کرکے خطے میں اپنے نئے اتحادی ڈھونڈنے شروع کر دیئے تھے لیکن ہم وہیں کھڑے رہے۔ تازہ ترین پاک افغانستان سرحدی کشیدگی بھی تعلقات کی کشیدگی کی طرف اشارہ ہے۔جنوب مشرقی ایشیا ء کے خطے میں پاکستان اپنے خاص محل وقوع کے اعتبار سے ایسی جگہ پر واقع ہے جو بلا شبہ نہ صرف سنٹرل ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے حوالے سے ایک گیٹ وے ہے بلکہ افغانستان اور ایران کے راستے یورپ تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ ماضی میں گرم سمندروں تک رسائی روس کی درینہ خواہش رہی جو بالاخر یو ایس ایس آر کی ٹوٹ پھوٹ پر منتج ہوئی کیونکہ روس افغانستان کے راستے پاکستان کو زیر کرتے ہوئے گرم سمندروں تک رسائی کا متمنی تھا۔ لیکن روس کا راستہ روکنے میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا ، طاقت کا تواز ن روس کی افغانستان میں شکست اور اسکی اپنی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بگڑ گیا اور امریکہ کی واحد سپر پاور بننے کا خواب بھی پاکستان کے کردار کی وجہ سے شرمندہ تعبیر ہوا۔ روس اور امریکہ جیسی دو بڑی عالمی طاقتوں کی لڑائی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے اقتصادی ترقی کے میدان میں عالمی سطح پر ایک اقتصادی قوت کا مقام حاصل کر لیا۔ پاکستان کے پڑوس میں واقع ممالک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں جبکہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ کہ وہ ان مواقع سے نہ تو پاکستان کو فائدہ اٹھانے دیں گے اور نہ ہی قوموں اور ملکوں کی برادری میں پاکستان اور پاکستانی قوم کو عزت و وقار سے جینے دینا ہے۔ کیا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اپنی غلطیوں کی اصلاح پر مائل ہوگی۔؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر پاکستان کے حصے میں کوئی دیرپا اور پائیدار ترقی آنے والی نہیں۔موجودہ صورتحال میں پاکستان داخلی انتشار کیساتھ ساتھ عالمی خطرات کی زد میں بھی ہے۔ اس ملک کوداخلی طور پر مضبوط کرنے اورعالمی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ خارجی اور داخلی امور از سر نو مرتب کر کے ملکی پالیسیاں عوام کی رضا و اعتماد اور ملکی و قومی مفاد کے تابع کرنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے مسائل میں کمی نہیں بلکہ آئے روز اضافہ ہی ہوگا اور ہم دنیا کی نظروں میں مزید گرتے رہیں گے۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker